کبھی روگ نہ لگانا پیار کا (session1)بقلم ملیحہ چودھری
قسط11
•••••••••••••••••••
وہ اپریل کی اُداس شام تھی.." سورج افق پر غروب ہو رہا تھا اور اُسکی نارنجی کرنیں بکھری پڑی تھیں۔رات کا اندھیرا اُنہیں اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔۔پنچھی اپنے اپنے گھونسلوں میں جانے کی تیاری میں تھیں۔۔۔آج حویلی میں معمول سے ہٹ کر بہت خاموشی تھی۔۔۔وہ ابھی ابھی اکیڈمی سے آئی تھی.."عالیان نے اُسکو برتھڈے گفٹ پر اکیڈمی میں ایڈمشن دلایا تھا۔۔اب اسکو اپنی پڑھائی کو لے کر جو تھوڑی بہت پریشانی تھی " وہ بھی ختم ہو گئی تھی..." وہ یونیورسٹی سے سیدھا اکیڈمی جاتی اور وہاں سے عصر اور مغرب میں حویلی آتی تھی۔۔۔" آج بھی وہ ایکڈمی سے حویلی آئی تو اسکو حویلی میں بہت خاموشی لگی...... وہ اپنے کمرے میں آئی آکر پہلے عصر کی نماز ادا کی اور پھر روم سے باہر آ گئی تھی.." رات کے کھانے کی تیاری کرنے کے لئے..." وہ کچن میں آئی تھی۔۔۔جہاں صغرا خالہ برتن دھو رہی تھی..." خالہ آج حویلی میں اتنی خاموشی " کہاں پر ہے سب .." اس نے پوچھا تھا.."ہاں بیٹا.."وہ بڑی بی بی جی کسی رشتےدار کی فوتگی پر گاؤں گئی ہیں" اور شہزین بیٹا.." باہر گئے ہے ۔۔" انکی کبھی رات تک واپسی ہوگی.." اور صائمہ میم صاحب کٹی پارٹی میں گئی ہے.." شاہزیب بابو اپنے روم میں ہے.." وہ برتن دھوتی بولی...." اوہ ہ ہ...لیکن خالہ آپ اس وقت برتن کیوں دھو رہی ہے..؟ مطلب کوئی آیا تھا کیا...؟ اسنے پھر سے سوال کیا..." ہاں بیٹا" شاہزیب بابو کے کچھ دوست آئے تھے..."صغرا خالہ بتا ہی رہی تھی.." جب درمیان میں بات کاٹتی بولی تھی.." شاہزیب آج آفس نہیں گئے ہے کیا...؟" نہیں...! انھونے بتایا تھا...." اچھا لیکن وہ تو صبح میرے سامنے ہی آفس کے لئے نکلے تھیں۔۔" وہ خود سے بڑبڑاتی فریج سے پانی کی بوتل نکل کر پانی پینے لگی تھی.." اسکو شاہزیب کا آفس نہ جانا ہزم نہیں ہو رہا تھا.." جو شخص ایک دن بھی آفس جائے بغیر نہیں رہ سکتا تھا آج وہی شخص گھر پر تھا...." وہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی تھی..." اچھا خالہ آپ ایک کام کریں آپ اپنے کوارٹر میں چلی جائے اور جا کر ریسٹ کریں .." تھک گئی ہوگی آپ....وہ بولتی ہوئی فریج سے سبزیاں،گوشت کے پیکٹ نکالنے لگی تھی.." آج اسکا ڈنر میں ویز بریانی، شامی کباب اور میٹھے میں لوکی کی کھیر بنانے کا ارادہ تھا۔۔ ہائے میری بچّی توں کتنا خیال رکھتی ہے دوسروں کا"بلکل کمال کی طرح.."بچّہ میں بلکل ٹھیک ہوں بلکہ آپ تھک گئی ہوگی..." وہ پیلے اور کالے رنگ کی لانگ فراک میں حجاب میں لپٹا پر نور چہرا "وہ آسمان سے اُتری پری لگ رہی تھی" وہ بہت معصوم اور بہت حساس تھی " ہمیشہ دوسروں کا ہی سوچتی .." کبھی اپنے بارے میں نہیں سوچتی تھی.."اسکو دوسروں کا غم بھی اپنا ہی لگتا تھا"صغرا خالہ نے اسکو پیار سے دیکھتے کہا تھا.."نہیں میں الحمدللہ بلکل فٹ ہوں بس آپ ریسٹ کرے جا کر" اس عمر میں آپ کو جہاں آرام کرنا چاہیے وہاں آپ کام کرتی ہے۔۔۔" اب میں آ گئی ہوں۔۔۔" میں کر لونگی کام " اور ویسے بھی اب بس رات کا کھانا اور برتن ہی تو دھونے باقی رہ جائے گے.. وہ اُنکا ہاتھ تھامتے ہوئے گویا ہوئی .." ٹھیک ہے بیٹا.." صغرا خالہ وہاں سے جا چکی تھی..." وہ مگن سی اپنا کام کرنے میں مصروف تھی.." جب پیچھے سے کسی نے اسکو اپنی باہوں میں بھرا تھا۔۔۔۔۔۔" مائشا تو اس اقدام پر سہم ہی گئی تھی..." ن نہ میری جان پیچھے پلٹ کر مت دیکھنا ورنہ برداشت نہیں کر پاوگی آپ..." مائشا نے پیچھے پلٹنے کی کوشش ہی کی تھی " تب وہ شخص بولا تھا..." اس آواز کو وہ بخوبی پہچان سکتی تھی..." شاہزیب بھائی" وہ زیر لب بڑ بڑائی تھی.."وہ اپنے آپ کو چھوڑوانے کی نا کام سی کوشش کرنے لگی تھی...." چھوڑو شاہزیب بھائی پلز مجھے چھوڑے...." وہ بار بار کوشش کرنے لگی .." آج نہیں چھوڑ سکتا بھئی اتنے دونوں سے موقعے کی تلاش میں تھا.." اور آج جب موقع ملا ہے تو کیسے چھوڑ دوں.." ہر گز بھی نہیں.." اب وہ اُسکی گردن کو اپنے لوبوں سے چھونے کی کوشش کرنے لگا تھا..." ن نہیں شاہزیب نہیں خدا کے لیے یہ ظُلم مت کیجئے ..." کم سے کم یہیں سوچ لیں کہ میں اس گھر کی عزت ہوں..."وہ روتے ہوئے بولی تھی.." شاہزیب نے اسکو بازوؤں سے پکڑ کر اسکو اپنی طرف گھمایا تھا..." مائشا نے ایک نظر اسکو دیکھا" بغیر بلیان کے صرف ڈھیلے سے ٹراؤزر میں اسکا کسرتی بدن نمایاں ہو رہا تھا.." ماتھے پر بکھرے بال، کالی گہری آنکھیں جن میں شیطانیت صاف نظر آ رہی تھی ،انابی لب جن کے اوپر مونچھوں کا بسیرا تھا۔۔۔وہ چہرے پر شیطانی مسکراہٹ لیے اسکو ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔" مائشا نے اپنے آنکھیں زور سے بند کر لی....اُسکے اس انداز پر شاہزیب کے چہرے پر مکروہ مسکراہٹ نے احاطہ کیا تھا........"اور پھر اسنے مائشا کے بازووں کو چھوڑا اور تھوڑا پیچھے کو ہوا تھا......اور ایک بیہودہ سا سونگز گانے یاد کرنے کی ایکٹنگ کرتا بولا۔۔" وہ وہ کون سا سونگز ہے ہاں یاد آیا...
"باہوں میں تیری میری یہ رات ٹھہر جائے
تُجھ میں ہی کہیں پے میری صبح بھی گزر جائے
جس بات کا تُجھ کو ڈر ہے وہ کرکے دکھا دونگا"
ارمان ملک **
.…اسنے بےشرمی کی سارے حدوں کو فلانگتے ہوئے اُسکی طرف دیکھا تھا....." اُسکی بات پر مائشا کا ہاتھ اٹھا اور اُسکے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا.." شاہزیب غصے سے پاگل ہوتے ہوئے اسکو ایک گندی سی گالی دیتے بولا تھا.... ت تم نے شاہزیب پر ہاتھ اُٹھایا"ہاں میں بھی دیکھتا ہوں اب تم مجھ سے کیسے بچ سکتی ہو" بہت ہو گئی پیار سے..... اب تم مجھے روک نہیں سکتی اب جو میں تمہارے ساتھ کرنے والا ہوں ٫ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔۔" وہ اُسکے ساتھ زبردستی کرنے لگا تھا..." اُسکی بات پر ااُسکے وجود پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔۔۔ن نہیں پلز ز ز......اللّٰہ کے واسطے چھوڑ دے.." وہ اب شاہزیب کے آگے ہاتھ جوڑتے بولی..." اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی"۔۔۔اس ٹھپڑ کا بدلہ تو میں لے کر ہی رہونگا..."وہ بولا تھا..ن نہیں شاہزیب بھائی...مجھے معاف کر دے آئندہ کبھی آپ پر ہاتھ نہیں اٹھاؤنگی..."لیکن سامنے والے پر تو جیسے شیطان سوار تھا۔۔" کہاں وہ سنتا اُسکی...." اب وہ اُسکی طرف اپنے قدم بڑھانے لگا.."اور وہ پیچھے پیچھے چلتی چلتی کچن کی سیلف سے جا لگی تھی..." ن نہیں وہ بس ایک ہی لفظ بول رہی تھی " آگے اُس سے کچھ بھی نہیں بولا جا رہا تھا..."بیٹا جب تمہیں کچھ ایسا لگے کی تمہارے ساتھ کچھ بُرا ہونے والا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا وہ کبھی اپنے بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا.." اور پھر تمہیں جو بھی اچھا لگے.." بغیر ڈرے کر گزر جانا .." اُسکے کانوں میں اپنے بابا کہے الفاظ گونجنے لگے تھے..." اسنے اپنی آنکھیں بند کی اور دھیرے سے اللّٰہ کو یاد کیا"اور پھر پیچھے سیلف پر دھیرے دھیرے سے ہاتھ سے کچھ ڈھونڈنے لگی جب اُسکے ہاتھ اپنی مطالبہ چیز لگی تو اُسنے اٹھائی اور شاہزیب کے سر میں دے ماری..." ایک پل کو تو شاہزیب لڑکھڑایا تھا .." اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا آ گیا تھا... پھر بھی وہ اپنے آپکو سنبھالتا ہوا اسنے اوپر کو سر اٹھایا تھا.." جب تک مائشا وہاں سے جا چکی تھی..." ہوں ں ں ں ں..." شٹ ٹ ٹ.." اسنے غصّے سے پاس پڑے سٹول پر لات ماری تھی اور ایک گندی سی گالی دیتا بولا...."کہاں جاؤگی."اُسے پتہ تھا وہ کہاں پر جا سکتی ہے۔۔۔؟ اسنے مائشا کے روم کی طرف اپنے قدم بڑھا دیئے تھے۔۔۔اللہ پلز ز ز میری مدد کرے...." اللہ جی پلز ....." وہ گرتی پڑتی اپنے روم میں آئی تھی.." اور اندر سے دروازہ لاکڈ کرتی وہیں پر بیٹھتی چلی گئی..اب وہ روتی ہوئی اپنے اللہ کو یاد کر رہی تھی...." ماں باپ کا نا ہونا اور ایک تنہا لڑکی کا زندہ ہونے کا ..." صحیح معنوں میں آج پتہ چلا تھا..." وہ رو رہی تھی بے تحاشہ رو رہی تھی..." آج اسکا دل پھٹا جا رہا تھا۔۔۔وہ جن بھیڑیوں سے بچنے کے لئے خود کو دھامپتی تھی۔۔۔" وہیں بھیڑیا اُسکے پیچھے لگ چکے تھیں..." اللہ جی م میں کیا کروں....؟ اللّٰہ کوئی تو ہوگا تیرا نیک بندہ .." اللّٰہ جی اپنا کرشمہ دکھا دیں..." وہ دعا گو تھی اپنے اللّٰہ کے سامنے.." کھول دروازہ کھول..." شاہزیب دروازے میں لات مرتا چلّا رہا تھا..." پھر وہ کچھ سوچتا ہوا بولا..." اچھا میں تمہیں کچھ نہیں کہتا" سارا اختیار تمہیں دیتا ہوں.." تمہارے پاس دو آپشن ہے.. مائشا نے جلدی سے اپنی آنکھوں سے آنسوؤں پونچھے تھے اور بولی بتائے ک کون سے دو آپشن ہے..." وہ اندر سے ہی بولی تھی....." شاہزیب کے ہونٹوں پر بیختیار ایک مکروہ مسکراہٹ آئی تھی..." پہلے دروازہ تو کھولو." ن نہیں آپ وہیں سے بتائے .." وہ ڈرتے بولی..."اچھا ٹھیک ہے.." وہ آسانی سے مانتا بولا..." پہلا آپشن..تم نکاح کر لو مجھ سے..." اور دوسرا آپشن " اور اگر تم نکاح نہیں کر سکتی تو میں ایسے ہی............." وہ اپنے لفظوں کو ادھورا چھوڑتے بولا۔۔۔۔۔" اور آگے تم خود سمجھدار ہو۔۔۔بخوبی میری بات کو سمجھ سکتی ہو.." وہ دھیٹائی سے دروازے کو گھورتے بولا..." اُسکی بات پر اسنے قرب سے آنکھیں بند کر لی تھی..."اور ایک مجسمہ بنے دروازے کو گھورنے لگی تھی..." اسکا دماغ مفلوس ہو کر رہ گیا تھا.." دل دھڑکنا بھول گیا آنکھوں سے بیختیار آنسوئوں کی لڑی بہنے لگی" وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی.." کہ وہ منہال کے علاوہ کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرے گی.."اور یہاں یہ شیطان اسکو نکاح کرنے کا بول رہا تھا..." یا اللہ یہ تیری کیسے آزمائش....." وہ سر اٹھائے قرب سے آنکھیں بند کرتی بولی..." اور پھر چھت کی طرف اپنا منہ کیا.." اور آنکھیں کھولی تھی..."اللّٰہ تیری رضا تو ہی جانتا ہے .." شائد اس میں تیری کوئی مصلحت ہے.. وہ صبر سے بولی تھی...... وہ ایسی ہی تھی ہر خوشی ہر غم میں صبر کرنے والی....." بس اسکو اتنا تو سکون تھا کہ وہ ایک گھناؤنے گنہ سے تو بچ گئی.." جو نا جانے ..." اُسکی سزا کیا ہوتی..."جب زمین تمہیں تنگ لگے تو آسمان کی جانب دیکھنا نم آنکھوں سے،مسکرانا اور کہنا اچھا تُو ایسے راضی...!!!!!!! پھر میں بھی ایسے ہی راضی..!!""آج اسکو قدم قدم پر اپنے بابا کے کہے الفاظ یاد آ رہے تھے.." اسنے اپنے آنسوؤں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا ...." الحمدللہ کہا..." اور دروازہ کھول دیا تھا..." سامنے شیطان کھڑا تھا۔۔ " جو آج اُسکی زندگی تباہ کرنے کے لیے آیا تھا..." اور بغیر خوف کے اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی بولی .." ٹھیک ہے....! میں نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں..... کب کرنا ہے نکاح...؟ اس نے پوچھا تھا.." شاہزیب تو حیران ہی رہ گیا تھا.." جو لڑکی ڈر کِ وجہ سے دروازہ کھولنے پر بھی تیار نہیں تھی۔۔۔" وہ اُسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے پوچھ رہی تھی کہ کب نکاح ہے...؟ اتنی بھی جلدی کیا ہے.." پہلے تمہیں ایک کام اور کرنا ہے.." وہ بولا.." کیا کام اسنے پوچھا تھا.." نکاح سے پہلے سب کے سامنے اپنی ساری جائیداد اور آفس میرے نام کرنا ہوگا... " ورنہ پھر تم مجھے جانتی ہی ہو.." اسنے پھر سے اسکو ڈرانا چاہا تھا.." لیکن وہ بغیر ڈرے بولی.." ٹھیک ہے.... میں کرنے کے لئے تیار ہوں.." تو پھر ٹھیک ہے....." وہ اتنا بولا اور وہاں سے چلا گیا....."اور مائشا وہیں بیٹھتی چلی گئی."آخر کو وہ جتنی شاہزیب کے سامنے تن کے کھڑی تھی.." اندر سے وہ اتنی ہی گھبرا بھی رہی تھی.."اللہ جی.... جو کرے گا تو بہتر ہی کرے گا...." وہ اتنا بول کر اٹھی اور نماز کے لیے وجو کرنے چلی گئی..." اب اسکو اپنے اللّٰہ کے سامنے اپنے دیکھ درد بی تو سنانے تھے..." کیونکہ وہیں ہے جو سب کی بات بہت غور سے سنتا ہے... بیشک وہ سننے والا ہے۔۔۔۔۔۔
********************
ماضی»»»»»»»
دوپہر کے دو بج رہے تھے"ابر کے دن ہونے کِ وجہ سے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا." آسمان میں کالے کالے بادل اپنا ایک جہاں بسائے ہوئے تھیں.." جو برسنے کے لیئے بیتاب تھیں"کڑکتی بجلی" تیز چلتی طوفانی ہوائیں.." مانو لگ رہا تھا.." کسی کی زندگی تباہ ہو گئی ہو.." شاہ حویلی میں آج بلکل سنّاٹا تھا.." سب اپنے اپنے کمروں میں نیند کی وادیوں میں خواب خرگوش تھیں.." وہ لاؤنج میں بیٹھی بار بار ٹی وی کے چینل بدل رہی تھی.."اسکا دل بہت گھبرا رہا تھا..."سفید رنگ کا لانگ کرتا ،اور اس پر بلیو ٹائٹس پہنے ،حجاب میں لپٹا پُرنور چہرا.." جس سے اسکا پریشان ہونا صاف نظر آ رہا تھا..."اللّٰہ جی بابا ابھی تک حویلی نہیں لوٹے..." اُنکی حفاظت کرنا وہ دعا کر رہی اور ساتھ ہی ساتھ انٹر اینس گیٹ پر بار بار نگاہ بھی ڈال رہی تھی....اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت برا ہونے والا ہے۔۔۔" پر کیا وہ ابھی سمجھنے سے قاصر تھی..."جب اسکا دل حد سے زیادہ گھبرانے لگا تو وہ اٹھی اور سلیپر پہن کر اپنے روم کی طرف چلدی..." مقصد نماز پڑھنا تھا.." روم میں آ کر اسنے پہلے نماز ادا کی اور پھر دعا کے لئے بارگاہِ الٰہی کے سامنے ہاتھ پھیلا دیئے..." اُسکی آنکھوں سے آنسوں ٹوٹ ٹوٹ کر اُسکی ہتھیلی میں گرنے لگے تھے...... اُسکی روتے روتے ھڑکی بند گئی..." الفاظ لبوں سے چھوٹنا بند ہو گئے تھیں..."
بہت دیر بعد وہ بولی تھی "فقط اتنا "اے اللہ. اللّٰہ.اللہ..."یا اللہ میرے بابا کی حفاظت کرنا..." وہ روتی رہی اور اللہ سے دعا مانگتی رہی تھی..." وہ نماز ادا کر کے پھر سے لاونزیں آ گئی تھی..." تبھی حویلی کا فون بجا تھا.." اسنے فون اٹھاکر اپنے کان سے لگایا تھا..." ہیلو....! ہیلو۔۔۔۔۔۔بابا آپ کہاں پر ہے ۔۔" وہ بولی تھی.." دوسری طرف سے کوئی انجان آدمی بولا.." اس نے کان سے ہٹاکر موبائل کو گھورا اور پھر بولی.." آپ کون..؟یہ تو( کمال شاہ) میرے بابا کا نمبر ہے...دوسری طرف سے اس انجان شخص نے جو کہا تھا.." وہ اُسکے لیے ناقابلِ برداشت تھا..." بیٹا ان کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے.." اور ابھی انکو ہسپتال میں لے کر جا رہے ہیں...وہ شخص نا جانے اسکو کیا کیا بتا رہا تھا۔۔۔لیکن اُسکی تو صرف ایک ہی الفاظ پر دنیا رُک گئی تھی کہ" تمہارے بابا کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔۔اُسکے ہاتھ سے ٹیلیفون چھوٹ گیا تھا..وہ چکرا کر گرتی کسی نے جلدی سے اسکو سہارا دیا اور صوفے پر اسکو بٹھایا تھا..." اور پھر ٹیلیفون کی طرف بڑھا اسکو کان سے لگائے بولا۔۔۔
Yes ... I am speaking Aaliyan Malik Shah ....
("جی... میں عالیان ملک شاہ بول رہا ہوں ......)
دوسری طرف سے پھر وہی بات دہرائے گئی تھی."اور عالیان کو اپنی دنیا گھومتی نظر آئی..." وہ جلدی سے بولا ۔۔ا آپ مجھے ہسپتال ایڈریس بتائے"اُسکی آواز لڑکھڑای تھی۔۔۔ اسنے ایڈریس لیا اور وہاں سے بھاگتا ہوا سیدھا دادو کے روم میں گیا تھا..." دادو کو بتا کر وہ مائشا کو ساتھ لئے اب ہسپتال میں موجود تھا.... اسنے ریسیپشن سے ایمرجینسی وارڈ کا نمبر لیا تھا.." اب وہ دونوں ایمرجینسی وارڈ کے سامنے کے سامنے کھڑے تھے.."وہاں پر ایک آدمی اور تھا." شائد وہ وہی شخص تھا" جس نے کمال شاہ کو ہسپتال پہنچانے میں مدد کی تھی..."مائشا بس روئے جا رہی تھی...." بابا ..... اللہ جی میرے بابا کو ٹھیک کر دیں پلز اللّٰہ جی اور ساتھ ہی ساتھ اللّٰہ سے دعا گو بھی تھی...." عالیان سے وہ چھوٹی سی معصوم سی لڑکی روتے ہوئے نہیں دیکھی جا رہی تھی۔۔۔۔۔وہ اُسکے پاس گیا..." مایو ایسے رونے سے کام تھوڑی چلے گا.." تم چاچو کے لئے دعا کرو اب فلحال انکو تمہاری اور اہم سب کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔۔وہ اسکو سمجھاتے بولا تھا..." تب تک گھر کے سبھی اس چُکے تھے.." اب سب ہی ایمرجینسی وارڈ کے سامنے کھڑے ڈاکٹرز کا انتظار کرنے لگے..." تھوڑی دیر بعد ایمرجینسی ورد کا دروازہ کُھلا اور ڈاکٹر باہر آیا تھا.."عالیان جلدی سے ڈاکٹرز کے پاس گیا اور بیتابی سے اُن سے پوچھا تھا..." ڈاکٹر میرے چاچو اب کیسے ہے..؟ ڈاکٹر نے اُسکی طرف دیکھا اور ایک لمبی سانس لی اور بولا " آپ میں سے یہاں پر مائشا کون ہے...؟ مائشا نے اپنا نام سنتے ہی وہ ڈاکٹرز سے بولی .." جی میں ہوں...!" آپکو مریض بلا رہا ہے..." وہ جانے لگی تھی" تب ڈاکٹرز نے اسکو روکا تھا.." اور ایک ہدایت دیتے اس سے کہا تھا..." دیکھیے مریض کی ابھی بہت نازک حالت ہے.." اس لیے دھیان رکھئے گا..." کوئی ایسے ویسی بات بلکل نا کرنا جن سے انکو کوئی نکسان ہو.." وہ آنکھوں میں آنسو لیئے گردن ہلاتی اندر چلی گئی تھی۔۔" جہاں اُسکے بابا زندگی اور موت سے لڑ رہے تھے..." وہ اپنے بابا کے پاس آئی تھی اور روتے ہوئے اُنکا وہ ہاتھ تھاما تھا "جو بہت سی مشینوں میں جکڑا ہوا تھا..." بابا....." وہ فقط اتنا بولی اور اپنے بابا کا ہاتھ لبوں سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی...." اُسکی آواز سے کمال شاہ نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولی..." اور کراہیت جدہ آواز میں بولے..." م میری گ گاڑیاں ر رونا م مت ا اللہ سب ت ٹھیک ک کر د دیگا...." وہ لڑکھڑاتی آواز میں مائشا کو تسلّی دے رہے تھیں..." اس نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے اور بولی.." بابا میں نہیں روتی.." بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔ " کمال شاہ نے مائشا کا ہاتھ بہت زور سے پکڑا تھا.." اور بولے.." م مایو و وہ م میں ت تمہیں ک کچھ بتانا چ چاہتا ہوں.." م مجھے پتہ چل گ گیا ہے کہ ت تمہاری م ماما کس کے پ پاس ہے.." ا اور و وہ نہ بہت بری ہے..." اُنکی سانس اکھڑنے لگی تھی..." اُن سے بمشکل ہی بولا جا رہاتھا... وہ لمبی لمبی سانس بھرنے لگے ۔۔" مائشا انکی ایسی حالت دیکھ کر گھبرا گئی .." وہ گھبراتی ڈاکٹرز کی آواز دینے لگی تھی جب کمال شاہ نے اسکو روکا تھا.." اور بولے ۔۔" ب بیٹا م میری بات غور سے سنو.. " جس شخص ن نے ت تمہاری م مما ک کو اغواہ کیا ہے و وہ اس کا ن نام س س س....... وہ وہیں پر د توڑ گئے تھے۔۔۔۔۔ بابا ........... پورے ہسپتال میں اُسکی ایک دلخراش چیخ نکلی تھی.."اور وہ وہیں پر بیہوش ہو کر گر گئی تھی..."باہر کھڑے عالیان نے جب اُسکی چیخ سنی تو وہ اندر آیا تھا.." اور بیہوش پڑی مائشا کو دیکھا.." اور جلدی سے اسکو ڈاکٹرز کی مدد سے اُسکی آئی سی یو میں لے گئے تھے...." اور پھر کمال شاہ کے روم میں آیا تھا.." جہاں ملک شاہ، حسن شاہ اور شہزین بھی کھڑا تھا شاید وہ ابھی ابھی آیا تھا ہسپتال..." وہ چلتا ہوا آیا اور سب کِ طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا.." جیسے پوچھ رہا ہو کہ آپ سب ایسے کیوں کھڑے ہو...؟سب نے نظریں چُرائی جیسے اُنکے اس طرح کرنے اس حقیقت بدل جاۓ گی..." کیا ہوا بابا جانِ ...؟ اب کی بار اس نے ہمّت کر کے پوچھ ہی لیا تھا...پاس کھڑا ڈاکٹرز نے جواب دیا تھا..." ان کی انتقال ہو گیا ہے...." اور وہ جیسے ڈھے سا گا تھا..." یہ نیوز جب اُسکے لیے جان لیوا سے کم نہیں لگ رہی تھی تو مائشا کا کیا حال ہو گا....؟ اسنے جھرجھری سی لی تھی...وہ کھڑا ہوا اپنے آپ کو سنبھالا" کیونکہ اسکو مائشا کو بھی تو سنبھالنا تھا" پھر وہ" کمال شاہ "یعنی اپنے چاچو کی ڈیتھ باڈی حویلی لیجانے کے لیے شہزین کے ساتھ چلا گیا تھا۔۔۔
***********************
۞وَ ھُوَ مَعَکُم اَ ینَم ما کُنتُم
"اور جہاں کہیں تم ہو 'ﷲﷻ تمہارے ساتھ ہے"
القرآان
حال»»»»»»»»»
دن یوں ہی گزرتے جا رہے تھے..."وقت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے... کہ. یہ رکتا نہیں....گزرتا جاتا ہے.. تبھی تو سب وقت کو سب سے بڑا مرہم کہتے ہے.."کہتے ہے اگر وقت تھم جائے تو بہت سے دکھ ایسے ہوتے ہےجو ہم برداشت ہی نہیں کر پائے گے۔۔اور بہت سی خوشیاں ایسی ہوتی ہے جو مجید مہربانیوں کو روک دیں.... اللہ کی ہم پر .. اس سے زیادہ کیا رحمت ہوگی."کہ اس نے وقت کو ساکن نہیں کیا..مائشا نے بھی اپنے آپ کو وقت اور اللہ پر چھوڑ دیا تھا..." اب جو کرنا تھا اللّٰہ نے کرنا تھا.." بلکہ اللہ ہی تمہارا مولا ہے اور وہی بہترین مدد گار ہے.."اس آیت میں کتنا سکون ہے ان الفاظوں سے مومن کی روح کتنی پرسکون ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پوری دنیا کا بادشاہ، دو جہانوں کا مالک آپ کا محافظ ہے،ہر پل آپکے ساتھ ہے۔وہ آپکا بہترین مددگار ہے وہ آپکے دشمنوں کو خوب جانتا ہے اور وہ آپکے لئے کافی ہےاگر پوری دنیا بھی آپکے خلاف ہو جائے تب بھی آپکا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ،تو اپنے رب پر بھروسہ رکھیں اور اُسکے فیصلوں پر یقین رکھیں ، وہ جو بھی کرتا ہے بے شک ہمارے لئے ہی کرتا ہے ، ستّر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا ، ہمارے لیے کبھی برا نہیں چاہ سکتا۔ اس کی سر پرستی ہے ہمارے ساتھ ہے تو کیسے کچھ برا ہو سکتا ہے...؟ اس لیے مائشا نے اپنا ہر معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دیا تھا.." وہ تھوڑی تھوڑی مطمئن تھی اور تھوڑی بیسُکون بھی تھی..شاہزیب نے حویلی کے سب ہی بڑوں کو شادی کے لئے راضی کر لیاتھا" اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ مائشا سے نکاح کرنا چاہتا ہے.." کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا بس صائمہ بیگم کے علاوہ.." عالیان اور نور کو ابھی فلحال پتہ نہیں تھا.." جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے.." مائشا کی زندگی میں ایک بیسُکونی آتی جا رہی تھی..." اسکے دل کو جیسے قرار نہیں آ رہا تھا.." شاہزیب سے نکاح کرنے پر...." لیکن وہ کرتی بھی کیا.." اُسکے حال وہ تھا.." آگے گئی تو شیر کی خوراک بنتی اور پیچھے جاتی تو کھائی میں گرتی" کرتی کیا نا کرتی بس وہ اپنے دل کو تسلّی دے کر بار بار شانت کروا رہی تھی.." لیکن وہ چاہ کر بھی اپنے ذہن سے منہال کو نہیں نکال پا رہی تھی..."اللّٰہ جی میں کیا کروں ..؟ ایک طرف وہ ہے جو میری عزت کو اپنی ہوس سے پامال کرنا چاہتا ہے.." اور ایک طرف یہ ہے " جو دل میں ہوتے ہوئے بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا کہیں اُسکی نظروں سے میں ناپاک نہ ہو جاؤں...اللّٰہ کیا میں جی پاونگی ایسے شخص کے بغیر..." کیا محبّت کرنا غلط ہے ..؟اللّٰہ جی میں نہیں جانتی کیا غلط ہے کیا صحیح..؟ لیکن اللہ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ میں اس شخص سے بہت محبّت کرتی ہوں.." تیرے بعد اگر میں نے کسی سے محبّت کی ہے تو وہ ہے منہال سلمان شاہ...وہ اپنے اللّٰہ سے اپنا دل کا حال بیان کر رہی تھی....بس اللّٰہ تجھے جو اچھا لگے وہ کرنا " تیری ہر شے میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔۔۔۔بے شک تو رحیم ہے۔۔۔۔۔۔وہ ایسی ہی تھی..." وہ ذرا ذرا سی بات اللّٰہ سے شیئر کرتی تھی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اللہ اپنے بندے کی ضرور سنتا ہے۔۔۔وہ جانتی تھی کہ اللہ کبھی اسکو اکیلا نہیں چھوڑے گا اُسکے یہاں دیر ضرور ہے" پر اندھیر نہیں..." تبھی اسکا فون رنگ ہوا.." وہ اپنی سوچ کے دائرے سے باہر آکر فون کی طرف دیکھا.." جہاں کوئی انون نمبر تھا..." یہ فون نور حسن نے اُسکے برتھڈے پر گفت کیا تھا.."اس نے یہ سوچتے فون اٹھا لیا کہ شائد نور آپی کا ہو..."فون اٹھا کر اسنے کان سے لگایا وہ کچھ بولتی جب اُسکے کان میں ایک بہت پیاری سی بھاری مغرور آواز گونجی تھی شاعری کے الفاظوں میں ...
*"کوئی اس شخص سا دنیا میں کہاں ہوتا ہے
لاکھ چہروں میں جسے دل نے چنا ہوتا ہے
ہم تو اس موڑ پے آ پہنچے ہے محبّت میں جہاں
دل کسی اور کو چاہے تو گنہ ہوتا ہے"*
ملیحہ چودھری
وہ لاکھوں آوازوں میں بھی اس آواز کو پہچان سکتی تھی.." اور اس نے صحیح تو بولا تھا.." مائشا کو منہال کے علاوہ شاہزیب کے بارے میں سوچنا گنہ ہی تو لگ رہا تھا .."بھلے ہی کبھی ان دونوں کے درمیان چند باتوں کے علاوہ اور کچھ باتیں نہیں ہوئی تھی.." لیکن نہ ہوتے ہوئے بھی وہ دونوں ایک دوسرے۔ کو اچھے سے جاننے لگے تھیں.." اسکا دل بہت زور سے دھڑکا تھا...." آنکھیں حیاء سے جھک گئی تھی۔۔ ہتھیلی پسینہ سے شرابور ہو گئی تھی" جیسے کہ وہ اُسکے سامنے ہو..."وہ بہت دیر تک خاموش رہی " اتنے دنوں بعد اس نے اس دشمن جاں کی آواز سنی تھی۔"وہ اسکو محسوس کرنا چاہتی تھی.." اسکو اُسے سننا اچھا لگ رہا تھا..."وہ سب بھول گئی تھی..."سب کچھ "اگر یاد تھا تو وہ منہال تھا.."ہاں منہال سلمان شاہ تھا.." لیکن وہ کسی کو بتا بھی تو نہیں سکتی تھی..." مائشا......ا ا " منہال نے اُسکی خاموشی کو محسوس کرتے.." بولنے میں اپنی طرف سے پہلا کی تھی...."اس نے قرب سے اپنی آنکھیں بند کی ایک آنسوں آنکھوں سے ٹوٹ کر گال پر بہ گیا تھا.. جی..اس سے فقط اتنا ہی بولا گیا تھا..."اب آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹکا تھا...."کیا ہوا...؟ کیوں روں رہی ہو تم ..؟وہ فکرمندی سے بولا تھا.." اور مائشا کو حیرت نے آن گھیرا تھا.." اس کو کیسے پتہ چلا کہ میں میں رو رہی ہوں.." وہ بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی...." اتنا مت سوچو کہ مجھے کیسے پتہ چلا کہ تم رو رہی ہو.."وہ اپنی باتوں سے اسکو ایک بار پھر حیران کر گیا تھا.." اسکو لگا ضرور ہو نہ ہو.." یہ شخص یہیں کہیں آس پاس ہے.. اس نے ادھر اُدھر نظریں دوڑاتے وہ سوچ ہی رہی تھی" جب وہ بولا تھا.."کہا نہ "کہ اتنا مت سوچو" میں اپنے روم میں ہوں اور جہاں تک مجھے اندازہ ہے میرے روم سے تمہاری حویلی تک آنے میں وقت ڈھائی گھنٹے لگتا ہے..." وہ آج بار بار اپنی باتوں سے اسکو حیران کر رہا تھا.." چلو چھوڑو ان باتوں کو میں نے تم سے کچھ پوچھنا تھا.. وہ بہت اپنائیت سے بولا..اب وہ آپ سے تم پر آ گیا تھا..... جی پوچھے وہ اپنی ہتھیلی سے آنسو پوچھتی اسکو اجازت دیتی بولی..." و وہ م میں "منہال کو سمجھ نہیں آیا کہ کیسے وہ اپنی بات مائشا سے بولے.."دیکھو مائشا مجھے زیادہ گھما پھرا کر بات نہیں کرنی آتی.." اور پھر میں نہیں جانتا کہ میری بات سننے کے بعد تمہارا کیا ردِ عمل ہوگا..." لیکن میں تم سے کہنا چاہتا ہوں.." وہ رکا تھا۔۔اور پھر بولا مائشا میں تم سے مل کر یہ بات کرنا چاہتا ہوں.."بہت ضروری بات .." کیا تم مجھے مل سکتی ہو..؟ منہال نے آخر میں اس سے بہت آس لگائے پوچھا تھا........" مائشا کو بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ منہال یوں اچانک اُس سے ملنے کا بولے گا۔۔۔"وہ بہت دیر تک تو یوں ہی خاموش بیٹھی دیوار کو گھورتی رہی تھی..." اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا.." دل ڈر رہا تھا"اور دماغ اسکو ملنے پر اُکسا رہا تھا.." اللّٰہ کیا کروں وہ سوچ میں پڑ گئی.." جب منہال کو اس نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ گھبرا رہی ہی۔۔دیکھو مائشا میں جانتا ہوں تم یہ سب پسند نہیں کرتی"اور پھر یوں تنہا کسی سے ملنا." وہ اپنے الفاظوں کو ادھورا چھوڑتا بولا..."میں صرف تمہارا تھوڑا سا وقت لونگا.."ٹھیک ہے..! میں کل آپ سے یونیورسٹی کی چھٹّی کے بعد باہر ملتی ہوں۔۔اس نے ڈر ایک طرف کرتے ہوئے کہا تھا۔۔" اُسے اتنا تو بھروسہ تھا منہال پر کہ وہ کبھی اسکو نکسان نہیں پہنچائے گا...اس نے یہ بول کر فون کاٹ دیا.." اب اسکا دل مطمئن تھا..." کیونکہ مائشا کا یقین پختہ تھا منہال پر" اور جب یقین پختہ ہو تو اللہ ہمارے ساتھ کبھی برا نہیں کر سکتا...." وہ مطمئن ہو کر بیڈ پر آ کر لیٹ گئی.." آخر کو کل اُسے دشمن جان کو بھی تو دیکھنا تھا.."وہ بھی آخری بار "مائشا کی محبّت وقت کے ساتھ ساتھ شدّت پکڑ رہی تھی۔۔لیکن وہ بے بس تھی" اگر وہ اپنے لئے کچھ اسٹینڈ لیتی تو .."کیا معلوم شاہزیب اُسکے اور منہال کے ساتھ کیا کرتا.."وہ چاہ کربّھی کچھ نہیں کر سکتی تھی... وہ اپنی وجہ سے کسی کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی" اور اس شخص کو تو بلکل بھی نہیں"کیونکہ وہ اب اُسکی زندگی بن گیا تھا" وہ اُسکے بغیر زندگی گزار سکتی تھی.." اسکو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی"کیونکہ وقت ابھی اُسکے ہاتھ میں نہیں تھا.......کہتے ہے نہ"وقت بدلتا ہے حق آتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے ..اور مائشا کا ابھی وقت نہیں بدلہ تھا...جب بدلے گا نہ پھر وہ ہوگا جس پر رب العالمین کن کہے گا.. بے شک وہ ہم سے بہتر جاننے والا ہے۔۔۔۔
***********************
ماضی»»»»»»
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا محسوس ہو رہا تھا.."آنکھوں کے پپوٹے درد کی وجہ سے کھل ہی نہیں رہے تھے..."دماغ ایسے گھوم رہا تھا جیسے وہ کسی خلا میں ہو۔اُسے اپنے جسم کا کو بھی حصّہ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ عجیب سی رونما ہونے والی کیفیت سے بھر نکل چکی تھی۔۔اسکو اپنا آپ محسوس ہونے لگا تھا۔آنکھیں کھلتے ہی سر میں درد کِ ایک لہر اٹھی۔۔جس پر وہ کرّہ کر رہ گئی تھی...آج اسکو مکمل طور پر دس دن بعد ہوش آیا تھا...اور اُسکے بابا کو تدفین ہوئی آج دس دن ہوگئے تھے" پہلے بھی اسکو ایک دو بار ہوش آیا تھا.." لیکن وہ پھر سے بیہوش ہو جاتی..." اسکو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہی ہے..؟ کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ...؟ جو اسکا جسم درد سے فٹا جا رہا ہے...."میں تو ٹی وی دیکھ رہی تھی وہ ذہن پر زور دے کر سوچنے لگی..." اب اُسکی آنکھوں کِ سامنے فلم کی طرح اُسکے ساتھ ہونے والا واقعہ چلنے لگا تھا...." بابا ا ا ا ا ا ا ا ا...................؟وہ چلّائی تھی..."اُسکی چلّانے کی آواز اتنی بلند تھی کہ پاس کے پڑوسی بھی جگ جائے...." عالیان جو اُسکے روم میں ہی تھا .." وہ جلدی سے دوڑ کر آیا تھا..."کیا ہوا مایو.. ؟ وہ فکرمندی سے اسکو دیکھتے پوچھا تھا..مجھے بابا کے پاس جانا ہے.." کہاں ہے میرے بابا.." اعلی و وہ ٹھیک تو ہیں نہ... بتاؤ تم چپ کیوں ہو..؟ اعلی میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے... مجھے پتہ ہے میرے بابا کا تم نہیں بتاؤگے..." کوئی بات نہیں میں ہی اپنے بابا کے پاس چلی جاتی ہوں..." وہ زاروں قطار رو رہی تھی اور عالیان سے بار بار اپنے بابا کا پوچھ رہی تھی..." جب عالیان نے اسکو کچھ نہیں بتایا تو اسنے بیدردی سے اپنے ہاتھوں میں لگی ڈرپ ہٹائی اور باہر کی طرف بھاگنے لگی..." جب عالیان نے بڑی مشکل سے اسکو کنٹرول کیا تھا.." اور اسکا سر اپنے سینے سے لگا کر بولا...." مائشا میری بات دھیان سے سنو..."تم اللہ کی نیک بندی ہو نہ.." اللّٰہ پر یقین رکھتی ہو ہے نہ.. اس نے مائشا کی طرف دیکھ کر اس سے پوچھا.." جس پر مائشا میں گردن ہاں میں ہلائی تھی.." تو پھر تم اس پر بھی یقین رکھتی ہوگی کہ موت زندگی یہاں تک کے جو اس دنیا میں ہو رہا ہے سب اللھ کے اختیار میں ہے... مائشا نے پھر سے گردن ہاں میں ہلائی تھی.." تو پھر سنو تمہیں رونا نہیں ہے..یہ سب جو ہوا وہ اللہ کی امانت تھے جو اللہ نے انکو واپس لے لیا ہے..." مائشا کو سمجھ نہیں آیا کہ اللہ نے کیا واپس لے لیا ہے...."کیا...؟ اسنے ناسمجھی سے اُسکی طرف دیکھ کر پوچھا تھا.. آنکھیں اُسکی رونے کِ وجہ سے سوجھ گئی تھی..آواز بھی بیٹھ گئی تھی.." بولنے میں اسکو بہت تکلیف ہو رہی تھی.." وہ بمشکل بولی تھی..یہی کہ اللّٰہ نے کمال چاچو کو اپنے پاس بلا لیا ہے.." وہ اللھ کو پیارے ہو گئے ہے..." مائشا چاچو اب ہمارے درمیان نہیں رہے......اور مائشا کو لگا جیسے اُسکے کانوں میں کسی نے پگھلا ہوا شیشہ ڈال دیا ہو.." وہ جھٹکے سے عالیان سے دور ہوئی تھی..." اور بولی....ت تم جھوٹ بول رہے ہو.." نہیں میرے بابا مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے... نہیں جا سکتے...وہ بار بار گردن نفی میں ہلاتے بول رہی تھی" جب اُسکے کانوں میں اپنے بابا کے بولے گئے الفاظ گونجے تھیں..مائشا بیٹا آپ مجھ سے ایک وعدہ کروگی.." مائشا نے نہ سمجھیں سے اپنے بابا کی طرف دیکھاجیسے پپوچھ رہی ہو کون سا وعدہ..؟بیٹا اگر آپکے بابا نہیں رہے نہ تو آپ کبھی اللّٰہ کو نہیں بھولے گی.." باقاعدگی سے نماز ادا کیا کرے گی" اور اللہ سے کبھی مایوس بھی مت ہونا۔۔ کیونکہ جو اللہ سے مایوس ہو کر اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔۔" اللّٰہ انکو نہ پسند کرتا ہے .." اور بیٹا اپنا ہر معاملہ اللّٰہ کے سپرد کر دیا کرنا " چاہے کتنی بھی بڑی پریشانی ہو"جو شخص اللہ کے سپرد اپنا معاملہ چھوڑتے ہیں نہ تو اللہ اتنا اچھا فیصلہ کرےگا.." کہ دنیا اگر ساری بھی کرنی چاہے تو بھی نہیں کر سکتی بیشک وہ بہت اعلیٰ فیصلہ کرتا ہیں.." یعنی بابا جانتے تھے کہ وہ اب میرے ساتھ نہیں رہ پائے گے اس لیے ہی اُنہونے مجھ سے وعدہ لیا تھا.." ہاں بابا کو پتہ تھا....میں مایوس نہیں ہونگی .." میں اپنے بابا سے کیے گئے ہے وعدے کو بخوبی نبھاؤں گی...' اس نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے تھے اور وضو کرنے کے لئے باتھرُوم چلی گئی۔۔۔کیونکہ اسکا ٹریٹمنٹ حویلی میں ہی چل رہا تھا..."عالیان نے اس چھوٹی سی لڑکی کو دیکھا تھا.." جس نے کتنی جلدی اپنے آپ کو سمجھا لیا تھا"اگر مائشا کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو ضرور واویلا شروع کر دیتی... لیکن وہ مائشا کمال حسن تھی.." جس کا اللّٰہ پر اٹوٹ یقین تھا.." اور کبھی نہ ٹوٹنے کے لیے تھا...اس دن عالیان ملک شاہ مائشا کمال احسان شاہ کے محبّت کا روگ لگا چکا تھا.." کبھی نہ مٹانے کے لیے..اور اُسکی یہی محبّت ایک دن اس نام سے پکارے جانے والی تھی "کبھی روگ نہ لگانا پیار کا"
*********************
Assalamualaikum...🤗🤗🤗
kaise hain aap sab? Ummeed krti hoon kahiriyat se hi ho gey....
Qist 11 complete hui...aap pdh sakate hain....
Don't forget to vote, comments nd share....
Aur dear follow jaroor Krna....
😍😍😍😌😌😃😃👍